خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ذکر کو حُبِّ شے پر استدلال فرمایا یعنی جس شے کی محبت قلب میں زیادہ ہو تی ہے اس کا وہ اکثر ذکر کیا کرتا ہے ۔پس ذکر قلبی در اصل قلبی محبت کا نام ہے پس جب قلب میں حق تعالیٰ کی محبوبیت کا مقام پیدا ہو جاتا ہے تو دل ہر وقت اس کو یاد کیا کرتا ہے اور کسی وقت غافل نہیں ہوتا ،یہی ذکر قلبی ہے۔۷؍ ذوالحجہ ۱۳۹۴ھ مطابق ۲۲؍دسمبر ۱۹۷۴ء آیت فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا کی عاشقا نہ تشریح فرمایا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اَشَدُّ بَلَاءً الْاَنْبِیَاءُ ثُمَّ الْاَمْثَلُ فَالْاَمْثَلُ ؎ اور فرمایا کہ جتنی تمام نبیوں پر بلائیں آئیں مجھ اکیلے پر آئیں۔ اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی! آپ پر بلائیں آرہی ہیں، یہ کفار آپ کو ستارہے ہیں، طائف کے بازار میں آپ پر پتھر پھینکے جارہے ہیں لیکن آپ یہ خیال بھی رکھیں کہ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعۡیُنِنَا؎ آپ میری آنکھوں کے سامنے ہیں یعنی آپ میری نگاہ حفاظت خاص میں ہیں۔ اور فَاِنَّکَ جملہ اسمیہ سے بیان فرمایا جملہ فعلیہ سے بیان نہیں فرمایا کیوں کہ فعل میں کبھی چیز ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی، فعل میں استقلال نہیں ہوتا اور اسمیہ میں ثبوت و استقلال و دوام ہوتا ہے۔ اب معنیٰ یہ ہوئے کہ اے نبی! آپ تو مسلسل دائماً میری آنکھوں کے سامنے ہیں ایک سیکنڈ کو بھی آپ میری نظر کے سامنے سے نہیں ہٹتے ؎ خوشا حوادث پیہم خوشا یہ اشک رواں جو غم کے ساتھ ہو تم بھی تو غم کا کیا غم ہےدین کی لذّت کی مثال ساڑھے بارہ بجے دوپہر کے قریب عبدالباسط میاں اور ان کے چند دوست ------------------------------