خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
خزانہ تو ویرانے ہی میں دفن کیا جاتا ہے اپنے آپ کو شکستہ کر لو خزانۂ قرب مل جائے گا۔ تمام گناہوں سے بچنے میں نفس کو تکلیف ہوتی ہے مثلاً کوئی حرام روزی کمانے والے کے یہاں ٹیوشن کر تا تھا اﷲ کے خوف سے اس نے وہ ٹیوشن چھوڑ دیا،روپیہ میں کمی ہوئی، ضروریات میں کمی کر نی پڑی اور اس کمی سے دل کو تکلیف پہنچی۔ اﷲ تعالیٰ تو دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا بندہ ہماری محبت میں کیسی تکلیفیں اٹھا رہا ہے بس وہ بھی اس سے محبت کر نے لگتے ہیں پھر اس کے لیے اور دروازے کھول دیتے ہیں ۔اﷲ کے راستے کے غم کی عظمت ارشاد فرمایا کہ مخلوق پر نظر نہ رکھو، ان سے ہی مانگتے رہو ،ان ہی کے بھکاری بنے رہو اگر چہ کبھی وہ پیالہ پٹک بھی د یتے ہیں جیسے لیلیٰ نے مجنوں کا پیالہ پٹک دیا تھا تمام فقیروں کو بھیک دے دی مجنوں کا نمبر آیا تو اس کا پیالہ چھین کر زمین پر پٹک دیا، تمام فقیروں نے کہا کہ تم بڑے لیلیٰ کے عاشق بنتے تھے تمہیں تو اس نے بھیک تک نہ دی لیکن مجنوں کو جو خوشی ہو رہی تھی اسے وہ ہی جانتا تھا اس لیے کہ ؎ اسی کو غم بھی دیتے ہیں جسے اپنا سمجھتے ہیں اگر میاں نے تمہارا پیالہ پٹک دیا تو کیا غم ہے دوسرے لاکھوں پیالے عطا کر دیں گے ۔ غیروں کو یہ غم نہیں ملتا ۔انہیں تو دنیا کے فانی عیش عطا کر دیتے ہیں اور اپنوں کو چوں کہ لافانی چیز دینی ہے اس لیے انہیں گھٹیا چیز نہیں دیتے۔ لہٰذایہ غم بڑی نعمت ہے ۔ سوزِ غم پروانوں کو ہی ملتا ہے مکھی کو نہیں دیتے ؎ سوزِ غم پروانہ مگس را نہ دہند مکھی تو غلاظتوں پر بھنکتی رہتی ہے، وہ کیا جانے کہ شمع پر جل جانے میں کیا مزہ ہے۔ ایسے ہی دنیا دار دنیوی لذتوں کی غلاظت پر عاشق ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ اﷲ کے غم میں کیا لذت ہے۔ مومنین کی جانیں پروانہ ہیں وہ اﷲ کے نور پر اپنی جانوں کو قربان کرتے رہتے ہیں۔ گناہوں سے بچنے کی ہر مشقت کو برداشت کر تے ہیں کیوں کہ ایمان والوں کی نظر اﷲ پر ہوتی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ تم ان کے فرماں بردار بندے بنو پھر وہ کسی کو محروم نہیں رکھتے، فرماتے ہیں: