خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
مومنین بھی کرتےہیں لیکن قلب کی نگرانی اولیاءا للہ ہی کرتے ہیں۔ میں نے اپنے شیخ کو دیکھا ہے کہ تنہائی میں بیٹھے ہیں۔ میں دور سے حضرت کو دیکھا کرتا تھا لیکن ایسے کہ حضرت کو میری موجودگی کا علم نہ ہو، تاکہ حضرت کی عبادت میں خلل نہ پڑے۔ بیٹھے بیٹھے بعض دفعہ کہتے تھے: یاربی معاف فرمادیجیے۔جیسے اللہ تعالیٰ سامنے ہوں اور باتیں ہورہی ہوں۔ یہ کیا تھا؟ یہی کہ کبھی جاہ کا خیال آگیا توفوراً اس کی تلافی کر دی کہ نفس میں بڑائی نہ آنے پائے۔اس راہ میں آخر دم تک قلب کی نگرانی کرنی پڑتی ہے، تراش خراش میں لگا رہنا پڑتاہے ؎ اندر ایں ره می تراش و می خراش تا دمِ آخر دمے فارغ مباش اس راستے میں یہ ہی کھلتا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے، میں کچھ نہیں ہوں، جتنی قرب میں ترقی ہوتی جاتی ہے اپنی حقارت بڑھتی جاتی ہے۔ جس نے یہ سمجھ لیا کہ آج میں کچھ ہوگیا، مجھے کچھ قرب نصیب ہوگیا تو سمجھ لو کہ اسے کچھ نہیں ملا، یہ محروم ہے۔ سالک تو خاتمہ کے خوف سےکائنات کی ہر شے سے اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے۔ اس لیےکسی مسلمان سے کبھی اپنے آپ کو اچھا نہ سمجھنا، چاہے اس کا عمل کتنا ہی خراب ہو، چاہے وہ بے نمازی ہو، شرابی ہو۔ بس یہ سوچنا چاہیے کہ نہ معلوم اللہ کو اس کا کون سا عمل پسند ہو اور علم الٰہی میں اس کا خاتمہ اچھا ہونا لکھا ہو اور میرا خاتمہ نہ معلوم کس حال پر ہو، نہ معلوم میری کون سی بات اللہ میاں کو ناپسند ہو کہ خاتمہ خراب ہوجائے اور حکم ہو جائے کہ جا کمبخت! تیرا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ساراعمل دھرا رہ جائے۔ اس لیے سب کو اپنے سے اچھا سمجھو، خوش اخلاقی اور تواضع سے پیش آؤ۔تبلیغ کرتے ہوئے اپنی حقارت کا استحضار لازم ہے اگر کبھی دینی معاملے میں کسی پر خالص اللہ کے لیے غصہ کرنا پڑے تو بھی تنہائی میں جاکر اللہ سے روؤ،کیوں کہ بعض دفعہ جو غصہ اللہ کے لیے ہوتا ہے اس میں بھی نفس شامل ہوجاتا ہے۔کبھی کسی کو ڈانٹ رہےہو کہ او بے نمازی! نماز کیوں نہیں