خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
بتایا ہے کہ وہ مقروض ہیں۔اس رئیس نے کہا کہ ان محدّث صاحب سے کہیے گا کہ وہ آکر میرے گھر سے پیسے لے لیں۔ میں نے کہا کہ آپ گھر کیوں بلار ہے ہیں؟کیا اس میں دین کی عظمت ہے؟کہا نہیں وہ ہر مہینہ رسید بک لے کر خود آتے ہیں۔ تو آپ ہی بتائیے یہ کیا ہے؟ بس ہم کچھ نہیں کہتے ہیں، جن کے نزدیک اس طرح سوال کرنا جائز ہے وہ جانیں مگر اختر نے جو اپنے بزرگوں سے سیکھا ہے کہ اُمراء کے سامنے استغنا سے رہو لیکن جو لوگ میرے مزاج سے واقف ہیں اور بعض دفعہ میرے ساتھ سفر میں رہے ہیں، افسوس ہے کہ میرے مزاج کی رعایت نہیں کرتے، ان سے کہتا ہوں میرے مزاج کے خلاف کوئی بات ایسی میرے کان میں مت ڈالو کہ جس سے میں تمہاری محبت میں مجبور ہو کر لوگوں کو توجہ دلاؤں یہ میری غیر ت اور میرے دینی مزاج کے خلاف ہے۔علمائے کرام کے لیے آبِ زر سے لکھنے کے قابل بات آپ بتائیے! سندھ بلوچ سوسائٹی کراچی میں ڈیڑھ سال تک زمین کے اوپر آسمان کے نیچے روزانہ دوستوں کے ساتھ نوافل پڑھ کر دعا کی کہ یا اﷲ یہاں خانقاہ کے لیے کوئی زمین دلوا دیجیے جہاں اﷲ کا نام لوں اور دوستوں کو تصوف اور آپ کی محبت سکھاؤں۔ مگر میں نے اس کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا کہ مجھے خانقاہ کے لیے پیسے دو۔ تو بھئی میں نے اپنے بزرگوں سے یہ ہی سیکھا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے دین کی خدمت کے لیے مامور فرمایا ہے وہ بہت محتاط رہیں۔ چاہے کوئی کتنا ہی خاص ہو، اخص الخواص ہو اس سے بھی کبھی سوال نہ کریں ورنہ اس کے قلب سے بھی ایسے عالم کی عظمت ختم ہو جاتی ہے۔ دولفظ میں نے علماء کو بتائے کہ عزت ِنفس ا ورعظمتِ دین سے کام کر و یہ دو لفظ یاد کر لو، ڈائری میں نوٹ کر لو کہ عزت ِنفس اور عظمت ِدین۔ کوئی تمہارا خاص سے خاص بھی ہو، اس سے بھی نہ کہو تجربہ یہی ہے کہ جو مستغنی رہتا ہے لوگ اس کے دردِ دل کی بات سنّتے ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ ہم بڑا مدرسہ بنائیں اورسوال کر کے اپنے دردِ دل کو مٹی کریں۔ جس کو سو دفع غرض ہوگی ان شاء اللہ ہم اسے دین سکھائیں گے، باقی جو اس کام کو دوسرے انداز سے کر رہے ہیں ان پر میراکوئی اعتراض نہیں ہے کیوں کہ ہر شخص کے مختلف حالات ہیں۔ لہٰذا ہم سب علماء کی عظمتوں کو علَی الرأ س والعین رکھتے ہیں۔ مدارس کا وجود یقیناً بہت