خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
عرضِ مرتب آج سے تقریباً۴۴؍سال پہلے ۱۳۸۹ھ مطابق ۱۹۶۹ء میں جب احقر پہلی بار حضرت مرشدی ومولائی قرۃ عینی وقلبی، سراج الملۃ والدین، مجددِ دوراں،غوثِ اعظم، شیخ العرب والعجم، عارف باﷲ حضرتِ اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم وعمت فیوضہم ؎ زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا کہ میرےنطق نے بوسےمری زباں کے لیے کیا کہوں جب حضرتِ والا کا نامِ نامی زبان پر آتا ہے تو قلب وروح میں شہد گھل جاتا ہے اور کیف میں ڈوب جاتا ہوں اور قلم اپنی روش چھوڑ کر حضرتِ والا کی مدح سرائی پر مجبور ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ حضرت مرشدی دامت برکاتہم کا سایۂ عاطفت ہمارے سروں پر تاحیات قائم رکھے اور حضرتِ والا کو پھر سے صحتِ کاملہ عاجلہ مستمرہ عطا فرمائے اور میرے قلبِ مضطر کو چین بخشے، آمین۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ ۴۴ ؍ سال قبل جب پہلی بار حضرتِ والا کی خدمت میں حاضری ہوئی تو حضرتِ والا حسبِ عادت شریفہ ہمہ وقت اﷲ تعالیٰ کی محبت کی گفتگو اور اپنے ارشادات سے مشرف فرماتے تو احقر کیف و وجد میں ڈوب جاتا کہ ایسے ارشادات نہ کبھی کانوں نے سنے تھے نہ کتابوں میں پڑھے تھے۔ اس وقت احقر کے پاس نہ ٹیپ ریکارڈ تھا،نہ قوی حافظہ تھا، نہ علمی استعداد تھی، جب موقع ملتا تو اپنی یاد داشت سے ان ملفوظات کو نوٹ کرلیتا ، بعض دفعہ دو دو تین تین دن کے بعد نوٹ کرتا۔ اب اتفاقاً ایک دن وہ پرانا رجسٹر اٹھاکر دیکھا تو احقر کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ عظیم الشان مضامین جو قرآن وحدیث کے الہامی علوم کے ساتھ تصوف وسلوک کی روح اور محبت ومعرفت کے بیش بہا خزانے ہیں نہ جانے کس طرح اس ناکارہ سے قلم بند