خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
حقیقت کھل جائے، یہ بڑی نعمت ہے۔ جب یہ حقیقت کھل جاتی ہے تو پھر دنیا دل میں نہیں آ سکتی۔ دل اللہ کی یاد میں سکون سے رہتا ہے۔ ایک اللہ والے کا بچہ بھی بیمار ہوتا ہے اور دنیا دار کا بچہبھی بیمار ہوتا ہے۔ دنیا دار ہزاروں روپیہ ڈاکٹروں پر خرچ کرتا ہے لیکن دل بےچین رہتا ہے، جانے اچھا ہوگا کہ نہیں، اگر اچھا نہیں ہوا تو کیا ہوگا، حواس خراب ہو جاتے ہیں اور اللہ والا اپنے مقدور بھر دوا کرتا ہے، پھر مسجد میں جاکر سجدہ میں گر کر دعا کرتا ہے کہ اے اللہ ! آپ کے حکم کی وجہ سے دوا تو کرلی لیکن شفا تو آپ ہی دیں گے، شفا عطا فرما دیجیے۔ دعا کرتا ہے اور قضا پر راضی رہتا ہے کہ میاں جس حال میں رکھیں گے اس پر راضی رہوں گا۔ اس لیے اس کے دل میں ٹھنڈ رہتی ہے کیوں کہ اس پر زندگی اور موت کی حقیقت کھلی ہوئی ہوتی ہے۔ زندگی اور موت کی اتنی حقیقت ہے جیسے دوا لماریاں ہیں، ایک نیچے، ایک اوپر، نیچے والی الماری سے اٹھا کر اوپر والی میں رکھ دیا، دنیا سے اٹھایا اور آخرت میں رکھ دیا۔ جانا سب کو وہیں ہے، اس لیے اللہ والے کے سکون کو دنیا کا کوئی غم نہیں چھین سکتا۔۲۳؍ ربیع الثانی ۱۳۸۹ھ مطابق ۸ ؍جولائی ۱۹۶۹ ء، بروز منگل مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شعر کی الہامی شرح ارشاد فرمایا کہ جو سیدھےراستے پر پڑجائے ایک دن پانی تک پہنچ جاتا ہے۔ پانی سے مراد قربِ الٰہی ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کنویں سے تم ہر روز مٹی نکالتے رہوگے تو انجام کار ایک دن پانی تک پہنچ جاؤ گے ؎ گر ز چاہے می کنی ہر روز خاك عاقبت اندر رسی در آب پاك راستہ چل رہے ہو، مجاہدات کر رہے ہو، ذکر کر رہےہو، انجام کار ایک دن اللہ تک پہنچ جاؤ گے۔ میں تو کہتا ہوں کہ پانی کا مزہ تو اللہ میاں پہلے ہی دن چکھا دیتے ہیں، جیسے ہی آدمی اللہ کے راستے میں قدم رکھتا ہے اللہ کی محبت کا مزہ پانے لگتا ہے، چاہے پہلے دن محسوس نہ ہو، پھر جوں جوں آگے بڑھتا رہتا ہے لذت بڑھتی رہتی ہے۔ خود سوچ لو کہ آج ذکر میں جو لذت محسوس کر رہے ہو کیا تین مہینہ پہلے ایسی لذت تھی؟ اسی طرح