خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
روپیہ ہی سے سکون ملتا ہے تو پھر یہ بے چینی کیسی ۔چالیس دن کوئی میرے پاس رہ کر دیکھ لے کہ کبھی دنیا کا ذکر آتا ہے یا نہیں۔تم بھی دنیا میں رہے ہو ہم بھی دنیا میں رہتے ہیں۔ مجھے بھی وہی ٹیکس دینا ہوتا ہے جو تم دیتے ہو لیکن کیا وجہ ہے کہ زبان پر کبھی کسی پریشانی کا ذکر بھی نہیں آتا۔ میرا بینک اکاؤنٹ صرف ۲۵؍ پیسے ہے۔ بیوی بیمار ہے، والدہ بیمار ہیں، میں خود بیمار رہتا ہوں لیکن جو سکون آج ہے وہ بیس سال پہلے نہ تھا دس سال پہلے بھی نہ تھا بلکہ ایک سال پہلے بھی نہ تھا ۔ سکون میں روزانہ ترقی ہو رہی ہے ؎ سینکڑوں غم ہیں زمانہ ساز کو اک ترا غم ہے ترے ناساز کو یہ میرا ہی شعر ہے جو دہلی میں ہوا تھاجب میں اپنے شیخ کے ساتھ پاکستان کا ویزا لے رہا تھا۔ میں نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت! ایک شعر ہوا ہے۔ فرمایا: سناؤ، تو حضرت یہ شعر سن کر بہت خوش ہوئے ۔کیا بتاؤں بڑی شفقت فرماتے تھے۔شیخِ کامل اور اس کی تربیت کے انداز ارشاد فرمایا کہ ؎ نیست معشوقی ہمیں زلف چلیپا داشتن درد سر بسیار دارد پاسِ دلہا داشتن یعنی شیخ بن جانا یہ نہیں کہ بڑی بڑی زلفیں رکھ لے، بڑی بڑی زلفیں رکھ لینے کا نام کارِ مشیخت نہیں ہے۔ دلوں کی تربیت کا کام بہت دردِ سر ہے۔ کسی طالب کے دل کی تربیت کس طریقے سے کی جائے یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے بڑا مشکل کام ہے۔یہ شعر شیخ کی شان میں ہے۔ میرے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہفرمایا کر تے تھے کہ شیخ ایسا ہونا چاہیے جو ہر طالب کے دل کی تربیت کے لحاظ میں کمال رکھتا ہو۔ جو شیخ کامل ہو تا ہے وہ ہر طالب کو ایک ہی لکڑی سے نہیں ہانکتا۔ جو لوگ عیش و عشرت میں پلے ہو تے ہیں ان کی تربیت اور انداز سے کر تا ہے اور دکھ بھرے دل کی تربیت کا انداز دوسرا ہوتا ہے۔جس کا دل دنیا کے کاموں میں نہیں لگتا شیخ