خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
حضرت تھا نوی رحمۃ اللہ علیہ خود کتنے بڑے عالم تھے اپنے وقت کے امام غزالی اور امام رازی تھے اور دین کا کتنا عظیم الشان کام اللہ نے ان سے لیا، لیکن فرماتے تھے کہ سب حاجی صاحب کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔ شیخ کا فیض نہ ہو تو علم سے بھی نفع نہیں ہوتا۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ مولانا تھانوی ایک جگہ وعظ فرمارہے تھے کہ میں نے خود وہ منظر دیکھا ہے کہ لوگ تڑپ رہے تھے، چیخ رہے تھے۔ کسی پر گریہ طاری تھا، کوئی آہیں بھر رہا تھا۔حکیم الامّت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اچانک ایک نعرہ لگایا ’’ہائے امداد اللہ‘‘اور منبر پر بیٹھ گئے۔ بعد میں کسی نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا معاملہ ہوا۔ تو فرمایا کہ حاجی صاحب کی برکت سے اتنے مضامین قلب میں آرہے تھے کہ مجھے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ کون سا مضمون پہلے بیان کروں اس لیے تشکر میں میرے منہ سے بے اختیار یہ نعرہ نکل گیا۔۸؍ ربیع الاوّل ۱۳۹۱ھ مطابق ۴؍مئی ۱۹۷۱ء آج حضرتِ والا دامت برکاتہم نے ازراہِ لطف و کرم کمالِ شفقت سے اس ناکا رہ ارذل الخلائق کے لیے یہ شعر فرمایا ؎ مرے پاس عشرت کے آنے سے اے دل ترے عیش و عشرت کے دن آگئے ہیںسائنس اور اہلِ سائنس کا بطلان ارشاد فرمایا کہ اے سائنس دان مخلوق بن کر تو انکار کی جرأت کیسے کرتا ہے۔ یا تو خالق بن کر دکھا کہ مکھی کا ایک پر ہی پیدا کردے تو ہم تیری بات مان لیں گے کہ کیوں کہ اس نے مکھی کا پر پیدا کر دیا ہے اس لیے اس کا یہ کہنا کہ آسمان مخلوق نہیں ہے یعنی موجودنہیں ہےصحیح ہے۔جب تو مکھی جیسی ادنیٰ مخلوق کا پر پیدا نہیں کرسکتا تو معلوم ہوا کہ تو خالق نہیں ہے بلکہ ہگنے موتنے والا ایک انسان ہے۔جب تو خالق نہیں ہے تو تیرایہ دعویٰ بھی باطل ہے کہ آسمان موجود نہیں ہے، کیوں کہ خالقِ حقیقی تعالیٰ شانہٗ نے فرمایا