خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
کے ان کی زبان سے پیسے کانام نہیں سنا۔اگر کوئی اس زمانے کا شمس الدین تبریزی ہوسکتا تو وہ شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ ہوتے۔بعض مہتمم حضرات کے طرزِ عمل پر نکیر ارشاد فرمایا کہ جتنی چادر ہے اتنے پاؤں پھیلاؤ، جتنی استطاعت ہے اس کے بقدر دین کا کام کرو۔ یہ کیا کہ طلباء سے مدرسہ بھر لیا اور چندے کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، جو مال دار آیا اس سے کہا:دیکھو! اس سال طلباء زیادہ لے لیے ہیں، بجٹ میں پیسے بھی نہیں ہیں ذرا مدرسہ کا خیال رکھنا، یہ کیا ہے؟ اگر دل میں نسبت مع اﷲ نہیں ہے تو بجائے اللہ کی محبت کے درد کے تمہاری زبان سے طلبِ زر اور مال کی طلب نکلے گی۔ اور یہاں تک کہ اگر اس مال دار نے کرتے کے اندر ہاتھ ڈال کر کھجلایا تو وہ سفیر سمجھے گا کہ کوئی بڑا نوٹ نکالنے والا ہے۔ ایک سفیر نے خود بتایا کہ ایک سیٹھ سے میں نے کہا کہ چندہ لا ؤ تو اس کے کھجلی لگ گئی۔ اس وقت اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا کھجلانے کے لیے سفیر صاحب سمجھے کہ بڑی جیب ہے کوئی بڑا نوٹ نکالے گا لیکن جب اس نے خالی ہاتھ نکالا تو اتنا غصہ آیا کہ بس۔ دوستو ہم نے تواپنے شیخ سے یہ سیکھا ہے کہ پیٹ میں چٹنی روٹی ڈال لو مگر اہلِ مال سے مستغنی رہو۔ میں واللہ کہتا ہوں جو مہتمم کتنا ہی بڑا خلیفہ ہو لیکن اگر کبھی اس نے مال داروں سے چندہ کے لیے کہا تو اس سے دین کی بات لوگ نہیں سنیں گے،بلکہ صورت دیکھتے ہی ڈر جائیں گے کہ آگئی کالی بلا،یہ پھر کچھ مانگے گا۔ بس اللہ کی محبت سکھا نے کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردو، شعبہ تزکیہ نفس بہت حساس مضمون ہے۔ اللہ کی محبت سکھانابہت حساس مضمون ہے یہ اتنا نازک مضمون ہے، یہ اتنا مبارک مضمون ہے کہ اس کے ساتھ چندہ اور طلب زر جمع نہیں ہو سکتے۔ بتائیے اگر دن بھر کوئی چندہ مانگے اور کسی رئیس سے کہے کہ میر ا بیان کراؤ تو رئیس سنے گا اس کی بات؟ رئیس تو کیا عوام بھی ایسے مولوی کی بات نہیں سنّتے۔ایک عالم کا افسوسناک واقعہ میں نے ڈھاکہ میں ایک محدث کے لیے ایک رئیس سے کہا کہ یہ بہت بڑے محدث ہیں آپ ان کے مدرسے میں جا کر خود چندہ دے دیں۔ کیوں کہ انہوں نے مجھے