خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ٹکڑے کو آپ دے رہے ہیں، اس کے مقابلے میں ہم کرسی اور صوفہ مانگیں۔ یہ ظلم ہے۔ وہ اپنی طرف سے آرام کے لیے اپنی بیٹی کے لیے کچھ دے دیں وہ ٹھیک ہے لیکن اگر اس کے پاس نہیں ہے، قرینے سے پتا چل جاتا ہے، کہ لڑکی کا والد مالی لحاظ سے کمزور ہے تو شریف داماد اور شریف سمدھی کا حق ہے کہ کہہ دے کہ آپ بالکل تکلف نہ کریں اور ان کو یقین دلاؤ کہ کوئی طعنہ نہیں دے گا بلکہ لکھ کر دے دو اور اس پر اس کی ساس کے بھی دستخط کرادو کیوں کہ اس وقت تو جوش میں کہہ دیں گی لیکن بعد میں ساری زندگی طعنے دیتی ہیں۔ جو مہمان آیا، ارے! آپ کی بہو کچھ لائی بھی ہے؟ ارے! کیا لائی ہے بس چند چیتھڑے اور کچھ ٹھیکرے لائی ہے، کپڑے کا نام چیتھڑے رکھ دیا، برتنوں کا نام ٹھیکرے رکھ دیا۔ اس لیے دل روتا ہے ایسے حالات سے۔ آپس میں آج اگر آپ اس مسجد کے اندر عہد کرلیں کہ ہم اپنی شادیوں میں بیٹی والے سے کہہ دیں گے کہ آپ پر کوئی جہیز کی ذمہ داری نہیں ہے۔اپنی بیٹی کو جو دل چاہے دیں نہ دیں اس پر کبھی طعنہ نہیں ملے گا، اس پر اپنی بیوی اور بیٹے کے علاوہ اس کی بہنوں کے بھی دستخط کراؤ،کیوں کہ بہنوں کی زبان بھی کبھی کڑوی ہوجاتی ہے۔ اس پر عمل کرو۔پھر دیکھو اللہ تعالیٰ کتنا راضی ہوتا ہے۔ ذرا یہ عمل کرکے دیکھیے تو شادی بیاہ بالکل آسان معلوم ہوگا۔ آج کل کیا حالات ہیں؟ اسلام آباد میں ایک شخص کی چھ بیٹیاں ہوگئیں تو مجھ سے کہنے لگے کہ کوئی تعویذ دے دو کہ اب بیٹی نہ ہو کیوں کہ خاندان میں پچاس ہزار ایک بیٹی پر خرچہ آتا ہے اور چھ بیٹیوں کو پچاس ہزار پر ضرب کرو تو تین لاکھ بنتا ہے۔ تین لاکھ میں کہاں سے لاؤں گا۔ پانچ ہزار میری تنخواہ ہے۔ تین ہزار خرچ ہوجاتے ہیں۔ ایک ہزار بچاؤں بھی تو تین لاکھ کہاں سے آئے گا لہٰذا مجبوراً سود لینا پڑے گا۔ قرضہ لینا پڑے گا۔ یہ ہماری غلطی ہے کہ ہم نے معاشرے میں غیر اسلامی رسمیں رائج کی ہیں اس کے لیے خاص طور پر آپ لوگ ہمت کیجیے،نہی عن المنکر کی جماعت الگ بنانے کی ضرورت ہے، اور بُرائیوں کو مٹانے کے لیے آپ سب اس میں داخل ہوجائیں۔ یہ جتنے لوگ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں سب بُرائیوں کے مٹانے میں ہمارے ممبر اور انصار ہیں۔