خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
حضرت سے عرض کیا کہ جج صاحب مجھے دعوت دے رہے ہیں کیا آپ کی اجازت ہے؟ حضرت نے اجازت دے دی اور میرے اس عمل سے حضرت بہت زیادہ خوش ہوئے۔ اگر آپ کو بھی کوئی دعوت دے یا ہدیہ دے تو میرے جتنے ساتھی ہیں وہ مجھ سے اجازت لیں کہ میں قبول کروں یا نہ کروں۔ اور مقامی حضرات بھی اجازت لیں کہ میں ہدیہ دینا چاہتاہوں۔ لہٰذا مولانا عبدالحمید صاحب مہتمم مدرسہ آزاد وِل نے پہلے مجھ سے دوستوں کو ہدیہ دینے کی اجازت لی۔ میں نے اجازت قبول کرلی۔ پھر میں نے اپنے دوستوں کو ان کا ہدیہ دیا، کیوں کہ طریقت و سلوک کی عظمت بڑی چیز ہے۔ مومن کی آبرو کتنی بڑی چیزہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے کعبہ! تیری عظمت سر آنکھوں پر ہے لیکن مؤمن کی آبرو تجھ سے بھی زیادہ ہے۔لہٰذا کوئی ایسا کام جو مؤمن کو بے آبرو کرے بہت سخت گناہ ہے، کبیرہ گناہ ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیںلَا یَنْبَغِیْ لِلْمُؤْمِنِ اَنْ یُّذِلَّ نَفْسَہٗ؎ مؤمن کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے نفس کو کسی طرح سے ذلیل کرے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ پیوند لگا ہوا کپڑا پہن کر سفر پر جارہے تھے۔ پیرانی صاحبہ نے فرمایا کہ اس سنّت کا یہ موقع نہیں ہے کیوں کہ سفر میں مریدین دیکھیں گے کہ میرے شیخ کے پاس پیوند لگے کپڑے ہیں تو یہ ایک قسم کا مانگنا ہے۔ یہ سن کر حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ وجد میں آگئے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا سمجھدار بیوی دی ہے۔ کسی شیخ اور عالم کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی دکان پر یوں کہے کہ یہ چیز کیا بھاؤ ہے؟ ماشاء اللہ! کپڑا بہت اچھا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوکاندار بے چارہ معتقدتھا، کہا حضرت! قبول کرلیجیے۔ اتنا قبول کیا کہ اس کی ساری دوکان خالی ہو گئی۔ پھر شیخ صاحب سارا مال اپنے خادم پر لاد کر چلے گئے۔ دوکاندار بے چارہ رونے لگا کہ شیخ میری دوکان کی جان نکال کر لے گیا۔ ------------------------------