خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ؎ پھر فرمایا کہ مخلوق کو نگاہ سے گرانے میں اور حقیر سمجھنے میں بہت باریک فرق ہے،اس میں خاص احتیاط کی ضرورت ہے ۔نگاہ سے گرانا تو یہ ہے کہ دل میں مخلوق کی کوئی وقعت نہ ہو قلب کو کسی سے علاقہ نہ رہے مخلوق کے تعلق پر اﷲ کا تعلق غالب ہوجائے، مخلوق کی نظروں میں معزز بننے کی یاخالق کی رضا کے مقابلے میں مخلوق کی رضا کی فکر نہ ہو کہ لوگ ہمیں کیا کہیں گے، مخلوق سے نظر بالکل اٹھ جائے اور خالق سے مل جائے یہ تو مخلوق کا نگاہوں سے گر جانا ہے لیکن یہ کہنا کہ میں لوگوں سے اچھا ہوں یا اب مقدس ہوں کہ مخلوق میرے قلب میں رہنے کے قابل نہیں یا میرا قلب مخلوق کے قید و بند سے آزاد ہو چکا ہے یا میں تکمیل ولایت و قرب خداوندی کے لیے مخلوق جیسی حقیر چیز کا قلب سے انخلا کرتا ہوں۔ غرض دوسروں کے مقابلے میں اپنی ذرّہ برابر برتری کا احساس یہ جرم ہے ۔پہلی حالت محمود ہے دوسری حالت مذموم۔ مطلب یہ ہے کہ قلب میں صرف اﷲ رہے اور غیر نہ رہے ،قلب کو غیر سے کوئی علاقہ نہ رہے اور یہ اس شخص کے لیے آسان ہو جاتا ہے جس کو مخلوق خود چھوڑ دیتی ہے اور اسے حقیرسمجھتی ہے ورنہ دوسری صورت میں قلب کو تمام علائق سے خالی کرنا اور اﷲ سے تعلق کا جوڑنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ لوگوں کے حُسن سلوک سے قلب کو ان کے ساتھ تعلق زیادہ ہو جاتا ہے اور کبھی یہ تعلق اﷲ کے ساتھ محبت وتعلق میں حائل ہو جاتا ہے۔ بر عکس وہ شخص کہ جس کا قلب تمام علائق سے خالی ہوتا ہے اس کا تعلق مع اﷲ بہت قوی ہو جاتا ہے اس کی نظر مولیٰ کے علاوہ کسی پر نہیں ہوتی۔ اس کے بعد حضرتِ والا کی برکت سے حضرتِ والا کے اس مضمون کو احقر نے مندرجہ ذیل اشعار میں قلم بند کرلیا جس کو حضرت نے بہت پسند فرمایا (میرؔ) نگاہ خلق سے گرنے کا غم ہو کیا مجھ کو نظر سے خلق کو خود ہی گرا دیا میں نے ------------------------------