خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
ایک سال بعد جو لذت محسوس کروگے وہ آج سے کہیں زیادہ ہوگی۔ یہ مزہ آخر دم تک بڑھتا رہتا ہے، یہ نہیں کہ اسّی برس کی عمر ہوگئی تو مزہ ختم ہوگیا۔ مولانا کا یہ شعر لکھ لو اور یاد بھی کر لینا،یہ بڑی امید دیتا ہے۔ کنواں کھودنے والا کنواں کھودتا رہتا ہے اور پانی کی امید پر اس کی محنت کو برداشت کرتا رہتا ہے، جیسے جیسے خاک نکلتی رہتی ہے پانی کا قرب بڑھتا رہتا ہے، پہلے خشک مٹی آتی ہے، پھر ایک دن مٹی میں نمی آنے لگتی ہے، حتیٰ کہ ایک دن گیلی مٹی آنے لگتی ہے، جب گیلی مٹی آنے لگتی ہے تو کنواں کھودنے والا خوش ہوجاتا ہے کہ بس اب پانی تک پہنچنے والا ہوں۔ اس کے بعد اس کے حوصلے اور امید میں اور ترقی ہو جاتی ہے۔ انجام کار صاف پانی کو پالیتا ہے۔ ایسے ہی اللہ کا راستہ ہے۔ آدمی مجاہدات کرتا ہے، ذکر کرتا ہے، ہر روز قرب بڑھ رہا ہے لیکن شروع میں اسے کوئی مزہ نہیں آتا کیوں کہ انوارِ ذکر ابھی ظلماتِ معاصی سے مخلوط ہوتے ہیں یعنی انوارِ ذکر ابھی ظلماتِ معاصی کے اختلاط کی وجہ سے خالص نہیں ہوتے لیکن سالک بے مزہ ذکر کرتا رہتا ہے،حتیٰ کہ ایک دن ذکر میں مزہ آنے لگتا ہے،قرب کی حلاوت محسوس ہونے لگتی ہے۔ابھی تو اللہ تعالیٰ خاک آمیز پانی پلارہے ہیں، اس میں یہ اثر ہے کہ کوئی سجدہ میں رورہا ہے، کوئی چیخ رہا ہے، ذکر میں لذت آرہی ہے،جس دن اللہ میاں صاف پانی پلائیں گے، گناہوں کی مٹی سے پاک قرب کا صاف پانی نصیب ہو جائے گا تو اس پانی کی لذت کو متپوچھو، بس کچھ کہہ نہیں سکتا ؎ جرعہ خاك آمیز چوں مجنوں کند صاف گر باشد ندانم چوں کند جرعہ خاک آمیز میں جب یہ اثر ہے کہ مجنوں کیے دیتا ہے۔ اگر صاف میسر ہوگا تو میں نہیں کہہ سکتا کہ کیا مزہ آئے گا۔ سالک جب تک گناہ کرتا رہتا ہے اس وقت تک ذکر کے انوارو برکات خالص محسوس نہیں ہوتے، جرعہ خاک آمیز ہو جاتا ہے اور جب آبِ خاک آمیز (قربِ ناقص) سے مٹی اور کیچڑ (ظلماتِ معاصی) بالکلیہ الگ ہو جاتے ہیں اور تقویٰ کامل عطا ہو جاتا ہے یعنی تمام گناہوں سے حفاظت ہوجاتی ہے اس وقت جان میں ذکر کے انوار خالص محسوس ہوتے ہیں اور روح کو قربِ خاص مست کر دیتا ہے اور