خزائن معرفت و محبت |
ہم نوٹ : |
|
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک میں آفتاب چل رہا ہے، نظر اپنی اپنی، کسی کی نظر وزارتوں اور کمشنریوں تک جاتی ہے اور کسی کی نظر بادشاہ پر جاتی ہے۔ ان ہی انسانوں میں ایسے ایازبھی ہیں جو ہفت آسمانوں اور ہفت زمینوں کے اوپر اپنی روحوں کو لے جاتے ہیں، جو ملوں پر ہاتھ نہیں رکھتے، وزارتوں پر ہاتھ نہیں رکھتے، چاند سورج پر ہاتھ نہیں رکھتے، ستاروں پر ہاتھ نہیں رکھتے، ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ سے تعلق کرتے ہیں کہ آپ پر ہاتھ رکھ رہا ہوں، آپ مل گئے تو زمین و آسمان کیا دونوں عالم مل گئے۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ سلطنتِ ہفت اقلیم پیش کی جائے گی تو اپنے ایمان کی حفاظت کی خاطر ٹھکرادو گے، کیوں کہ ہم کمزور ہیں، ممکن ہے سلطنت کے عیش میں پڑ کر اللہ سے غافل ہوجائیں۔ حضرت عمر اور حضرت ابوبکر صدیق کی سی طاقت ہر ایک میں تھوڑی ہوسکتی ہے کہ قیصر و کسریٰ کے وفود آرہے ہیں، پوچھتے ہیں کہ خلیفہ کہاں ہیں؟ بتایا جاتا ہے کہ شہر کے باہر جنگل میں اونٹوں کو چرارہے ہوں گے،لُنگی پہنے ہوئے گھاس پر لیٹے ہوں گے، گھاس کے نشانات جسمِ مبارک پر پڑے ہوں گے، اگر ایسی ایمانی طاقت ہو تو اس کے لیے بادشاہت جائز اور حلال ہے۔ مگر اس زمانے میں ایمان کمزور ہو گئے ہیں، حضرت سفیان ثوری تابعی ہیں، ہم سے سینکڑوں سال پہلے آئے ہیں، فرماتے ہیں کسی کو بادشاہت میں لطف مل رہاہے، کسی کو وزارت میں لطف مل رہا ہے، کسی کو اپنی فیکٹری میں مزہ آرہا ہے،کسی کو اپنے حسن میں مزہ آرہا ہے، اللہ والا قبرستان میں جاکر دیکھتا ہے کہ سب کا کیا حشر ہورہا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ قبرکے پاس آکر اتنا کیوں روتے ہیں؟ فرمایا کہ پہلی منزل تو یہی ہے، جس کی قبر اچھی ہے اس کی سب منزلیں آسان ہیں، ورنہ پھر مشکل ہی مشکل ہے۔ حضرت صدیقِ اکبر نے قبرستان میں جاکر خطبہ دیا تھا کہ اے نوجوانو! اپنی جس جوانی پر تمہیں ناز تھا، تمہاری وہ جوانی کیا ہوئی؟ تمہارا حُسن کہاں چلا گیا؟ اے پہلوانو! تمہاری پہلوانی اور طاقتیں کیا ہوئیں؟ اے بادشاہو! تمہارے وہ قلعے کیا ہوئے؟ دنیا کی حقیقت کھل جائے تو ساری پہلوانی اور ساری بادشاہت بھول جائیں۔ احمقوں سے دنیا آباد ہے لَوْ لَا الْحُمَقَاءُ لَخَرَبَتِ الدُّنْیَا اگر یہ احمق نہ ہوں تو دنیا کا کام نہ چلے۔ جس پر دنیا کی