تحدیث بالنعمۃ
فلک سے نت نئے مضموں عطا فرمائے جاتے ہیں
میں خود لکھتا نہیں اشعار تو لکھوائے جاتے ہیں
گلستانِ سخن سرسبز اور شاداب ہوتا ہے
مضامیں غیب سے کچھ اس طرح برسائے جاتے ہیں
ملا کرتا ہے دستِ غیب سے افکار کا توشہ
فقط الفاظ کا جامہ اثرؔ پہنائے جاتے ہیں
کسی کا عشقِ پنہانی ہمیں مجبور کرتا ہے
اثرؔ یونہی نہیں زلفِ سخن بکھرائے جاتے ہیں
سمجھنے سے ہے جس کے فہم عاجز عقل بھی حیراں
وہ اسرارِ محبت قلب کو سمجھائے جاتے ہیں
جہانِ غیب سے سجتا ہے جب اشعار کا گلشن
قوافی خود بخود صحنِ سخن میں آئے جاتے ہیں
وہاں سے ملتی ہے تخئیلِ نو کی آسمانی بھیک
یہاں جب دامنِ شعر و سخن پھیلائے جاتے ہیں