روح سلوک |
|
دنیائے فانی رہا محروم وہ دونوں جہاں کی شادمانی سے وہ جس نے دل لگایا عشرتِ دنیائے فانی سے گناہوں سے گناہوں کا تقاضا کم نہیں ہوتا یہ سچ ہے آگ بجھ سکتی نہیں نمکین پانی سے مرا خالق مرا مالک اثرؔ ناراض جس سے ہو مری توبہ مری توبہ ہے ایسی شادمانی سے بجھانا آتشِ دوزخ کا آساں تو نہیں لیکن سنو یہ آگ بجھ سکتی ہے بس آنکھوں کے پانی سے کوئی جانِ سخن میرے تخیل میں سمایا ہے جبھی اشعار وارد ہو رہے ہیں اس روانی سے اثرؔ تو کچھ نہیں لیکن اثر کے شعر کہتے ہیں اثرؔ کا بھی تعلق ہے کسی رومیٔ ثانی سے