سوزِ عشق
یہ کیسی آہ و فغاں ہے کسی کو کیا معلوم
کہ سوزِ عشق نہاں ہے کسی کو کیا معلوم
ہوس کی دھند میں گم ہیں سراغ موسم کے
بہار ہے کہ خزاں ہے کسی کو کیا معلوم
یہ عاشقی جسے کہتے ہیں زندگی کچھ لوگ
یہی تو دشمن جاں ہے کسی کو کیا معلوم
وہ جس کے گھر کا زمانہ طواف کرتا ہے
دل اُس مکیں کا مکاں ہے کسی کو کیا معلوم
بظاہر اشک کے موتی تو خوبصورت ہیں
جگر سے خون رواں ہے کسی کو کیا معلوم
محبتوں میں غرض کے حصول سے آگے
عداوتوں کا کنواں ہے کسی کو کیا معلوم
یہاں پہ درد کی قیمت سوا ہے درماں سے
یہ اہلِ دل کا جہاں ہے کسی کو کیا معلوم