فتح و ظفر کا دروازہ
نظر میں بس گیا اہل نظر کا دروازہ
اک عیب دار پہ وا ہے ہنر کا دروازہ
جو تجھ کو دوست بنائے گا فیل بان تو پھر
وسیع خود ہی کرے گا وہ گھر کا دروازہ
ہو جن کے دل میں خزانہ خدا کی قربت کا
وہ بند رکھتے ہیں اپنی نظر کا دروازہ
درِ سلوک مقفّل ہے صرف ان کے لئے
جو کھولتے ہیں اگر کا مگر کا دروازہ
دلِ فقیر مکانِ خدائے زر ہے اب
کھلے کھلے نہ کھلے مال و زر کا دروازہ
عجیب کیف کا عالم ہے خانۂ دل میں
کھلا ہے جب سے مری چشمِ تر کا دروازہ
نصیحتیں تو شب و روز سن رہا ہے مگر
اثرؔ پہ بند ہے شاید اثر کا دروازہ