روح سلوک |
|
خونِ تمنا زندگی ہم بھی گزاریں اہلِ تقویٰ کی طرح آخرت کی فکر بھی ہو کاش دنیا کی طرح آرزوئوں کا گلا گھونٹا تو یہ ثابت ہوا جگ میں کوئی خوں نہیں خونِ تمنا کی طرح ہم نے قدرت کا کرشمہ دیکھا ان کے ہاتھ میں مردہ دل کو زندہ کرتے ہیں مسیحا کی طرح ہو رہے ہیں دین کے پیاسے بہرسُو مستفیض فیض کا یہ سلسلہ جاری ہے دریا کی طرح اس میں بدعت کی ملاوٹ کا نہیں ہے شائبہ یہ تصوف ہے اثرؔ آبِ مصفّا کی طرح باز شاہی تو ہمارے پاس ہے لیکن اثرؔ ہم بھی ناقدری نہ کردیں اندھی بڑھیا کی طرح