روح سلوک |
|
جذب پنہاں حقیقت ہے وہی رہرو خوشی منزل کی پاتا ہے جو ساری عمر ان کے راستے کا غم اٹھاتا ہے ادھر بندہ جو اک بالشت بھی خود کو بڑھاتا ہے اُدھر مولیٰ بھی خود اک باہ پھر نزدیک آتا ہے جو بندہ دوڑ کر اپنے خدا کی سمت جاتا ہے خدا آغوشِ رحمت میں اسے بڑھ کر اٹھاتا ہے ترقی اور جب کرتا ہے بندہ پھر تو وہ مالک خود اس کے ہاتھ پائوں کان آنکھیں بنتا جاتا ہے مجھے لگتا ہے شاید جذبِ پنہاں اس کو کہتے ہیں وہ اتنے یاد آتے ہیں اثرؔ جتنا بھلاتا ہے