اتنا محبوب ہے اپنا عہدِ شباب
اب بھی بالوں کو کرتے ہیں کالا خضاب
ختم ہوتا نہیں ہے امیدوں کو خواب
کیا اجل ہی سے ٹوٹے گا یہ سلسلہ
اب ضعیفوں سے ہے یہ مری التجا
خود کو تیار رکھیں برائے قضا
عمرِ رفتہ کی غفلت کا غم ہے بہت
میں نے مانا یہ غم محترم ہے بہت
مسئلہ یہ ہے اب وقت کم ہے بہت
اب تو کر ہی لیں اصلاح کا فیصلہ
اب ضعیفوں سے ہے یہ مری التجا
خود کو تیار رکھیں برائے قضا
خوابِ غفلت سے بیدار ہوجائیں اب
فکرِ عقبیٰ سے سرشار ہوجائیں اب
اب بھی موقع ہے ہشیار ہوجائیں اب
غفلتوں کی بھی ہوتی ہے کچھ انتہا
اب ضعیفوں سے ہے یہ مری التجا
خود کو تیار رکھیں برائے قضا