شعرائے دنیا کی غزل خوانی
وہ کہاں شعرائے دنیا کی غزل خوانی میں ہے
جو سُرورِ بندگی آیاتِ قرآنی میں ہے
بے سبب تُو مبتلا اے دل پریشانی میں ہے
حلوئہ ایمان مضمر سیلِ عریانی میں ہے
یہ حقیقت ہے کہ اہلِ دل میں اور اللہ میں
ایسا ناطہ ہے کہ جیسا مچھلی و پانی میں ہے
پہلوانِ خواہشاتِ نفس کو چت کر سکے
اتنی قوت بھی نہیں کیا جوشِ ایمانی میں ہے
پھر رہا ہے جب پری چہروں کے چکر میں تو پھر
کیا عجب ہے دل اگر تیرا پریشانی میں ہے
دائمی ذلت کو بھی پیشِ نظر رکھے کوئی
عارضی لذت تو بے شک کارِ شیطانی میں ہے
فقرِ بوذرؓ کیوں نہیں ہے مشعلِ راہِ حیات
کامیابی کیا فقط زر کی فراوانی میں ہے