اے کاش ترا خود کو پرستار نہ کرتے
ہم جانتے تو تم سے کبھی پیار نہ کرتے
کیا علم تھا ہم کو کہ ترا حسن ہے فانی
اک خواب کی مانند ہے الفت کی کہانی
ورنہ کبھی ضائع نہیں کرتے یہ جوانی
اور خود کو کبھی عشق کا بیمار نہ کرتے
ہم جانتے تو تم سے کبھی پیار نہ کرتے
وہ زلفِ سیہ وہ لب و رخسار تمھارے
ہم جن کے سبب ہو گئے بیمار تمھارے
اور ناز اٹھانے لگے بیکار تمھارے
اس دام میں ہم خود کو گرفتار نہ کرتے
ہم جانتے تو تم سے کبھی پیار نہ کرتے
کیا علم تھا ہے خواب بہت جلد بکھرنا
اے حسن کی دیوی تجھے اک روز ہے مرنا
نادان تھے کم فہم تھے اے دوست وگرنہ
مرجاتے مگر ہم ترا دیدار نہ کرتے
ہم جانتے تو تم سے کبھی پیار نہ کرتے