مقامِ حضرتِ اقدس
خوشی قربان کرکے مسکرانا چاہتا ہوں
خدا کے راستے کا غم اٹھانا چاہتا ہوں
نہیں احساس تک باقی رہے مٹنے کا مجھ کو
میں اپنے آپ کو ایسا مٹانا چاہتا ہوں
بہ ایں امید اِس جانب بھی ہو نظر کرم اب
میں دل کو زخمِ حسرت سے سجانا چاہتا ہوں
بھلا میں سیم و زر کی وادیوں کا کب ہوں طالب
فقط تیری محبت کا خزانہ چاہتا ہوں
بس اب پردیس کی تزئین سے اکتا گیا دل
وطن کے واسطے بھی کچھ کمانا چاہتا ہوں
غرض مجھ کو زمانے کے چراغوں سے نہیں ہے
کہ میں خورشید سے نظریں ملانا چاہتا ہوں
فنا کی مجھ پہ جس دن سے حقیقت کھل گئی ہے
انا کے بت کو منہ کے بل گرانا چاہتا ہوں