صدقِ طلب کا اعجاز
دیکھ نسبت کو معاصی سے تُو کمزور نہ کر
آگ ہر گز نہ جلا نخلِ ثمر بار کے پاس
وہ جو اعمال سے ہر لحظہ ہو سنت کے قریب
درحقیقت ہے وہی روضۂ سرکار کے پاس
دل میں لاشیں بھی رہیں اور خدا بھی مہماں
کہیں ہوتی ہے ضیافت کسی مردار کے پاس
رشک کرتے ہیں سلاطین مری قسمت پر
آگیا ہوں میں شہنشاہ کے دربار کے پاس
یوں بھی ہوتا ہے کبھی صدقِ طلب کا اعجاز
خود ہی منزل چلی آتی ہے طلبگار کے پاس
کس لئے ہم کھنچے جاتے ہیں معاصی کی طرف
اہلِ گلشن تو نہیں جاتے کبھی خار کے پاس
توشۂ اشکِ ندامت ہے اثرؔ کے ہمراہ
کچھ نہیں اور سیہ کار خطاکار کے پاس