روح سلوک |
|
اصل آبادی فہم اس کا صرف دیوانوں میں ہے اصل آبادی تو ویرانوں میں ہے دارِ فانی میزبانِ عارضی اور انساں اس کے مہمانوں میں ہے کیا سکونِ دل نہیں ہے ذکر میں کیا پریشانی کا حل گانوں میں ہے غیر کی جانب ہوا ہے اس کا رخ کشتیِ دل جب ہی طوفانوں میں ہے پھر عمارت حسن کی ڈھا دی گئی زلزلہ پھر دل کے ایوانوں میں ہے جان سے انجان کر ڈالا مجھے جانے کیا ان سوختہ جانوں میں ہے وہ کہاں نوٹوں کے گِننے میں بھلا کیف جو تسبیح کے دانوں میں ہے