روح سلوک |
|
حمد ترا کیا ہے تو ہم ذروں کو پھر سے کہکشاں کر دے تُو چاہے تو ابھی پل میں زمیں کو آسماں کر دے الٰہی چلچلاتی دھوپ ہے غفلت کی اور ہم ہیں تو اپنی یاد کا سر پر ہمارے سائباں کر دے تری ہی ذات میری زیست کا مقصود بن جائے خیالِ غیر کو احساس پر کوہِ گراں کر دے مرے ظاہر کو جیسے حسنِ سنت سے نوازا ہے مرے باطن میں بھی پیدا وہ ساری خوبیاں کر دے شقاوت سے مرا دل ہو گیا مانندِ پتھر اب تو اس پتھر سے یارب اشک کا دریا رواں کر دے فقط اِک ذات باقی کو نگاہوں کا بنا مرکز اثرؔ اس کے علاوہ بند ساری کھڑکیاں کر دے