ترے بغیر
منظر نہیں ہے کوئی بھی پیارا ترے بغیر
آنکھوں کو چبھ رہا ہے نظارہ ترے بغیر
روحانیت پہ ایسا زوال آگیا کہ اب
کرتا ہے میرا نفس اشارہ ترے بغیر
ساقی تری نگاہ کا صدقہ ہے کیفِ جام
مستی ترے بغیر نہ نعرہ ترے بغیر
جب دل ہی بجھ گیا ہو تو آنکھوں کا کیا قصور
بے نور لگ رہا ہے ستارہ ترے بغیر
جس سمت دیکھو بغض و عداوت کا زہر ہے
جائے کہاں یہ عشق کا مارا ترے بغیر
کیا روگ لگ گیا ہے تجھے پوچھتے ہیں لوگ
وہ حال ہو گیا ہے ہمارا ترے بغیر
تُو ساتھ ہو تو خار بھی صحرا کے ہیں قبول
گلشن میں گل نہیں ہے گوارا ترے بغیر