روح سلوک |
|
میں نے مانا ابھی تُو معمر نہیں موت کا وقت لیکن مقرر نہیں دارِ فانی ہے رستہ کوئی گھر نہیں تُو مسافر ہے دنیا ہے اک سائباں آج کے نوجواں سن لے میری فغاں اونچے اونچے محل جو بنائے ہیں یہ گھر نہیں در حقیقت سرائے ہیں یہ ہرگز اپنے نہیں ہیں پرائے ہیں یہ بعد تیرے کوئی اور ہوگا یہاں آج کے نوجواں سن لے میری فغاں بیٹھکوں میں نہ یوں وقت برباد کر نفس کی قید سے خود کو آزاد کر اپنے خلّاق کو بھی کبھی یاد کر دیکھ تجھ پر ہے وہ کس قدر مہرباں آج کے نوجواں سن لے میری فغاں