طوفان لئے بیٹھے ہیں
دل میں جو عشق کا طوفان لئے بیٹھے ہیں
کوئی تو بات ہے ہونٹوں کو سیئے بیٹھے ہیں
ہم تو دو گھونٹ بھی پینے کو ترستے ہیں یہاں
آپ میخانے کا میخانہ لئے بیٹھے ہیں
بیوی بچوں کی جدائی پہ نہیں آتا قرار
دوریٔ رب پہ مگر صبر کئے بیٹھے ہیں
اپنے اعمالِ قبیحہ کا صلہ ہم کو ملا
ہم مگر اوروں کو الزام دیئے بیٹھے ہیں
تختۂ مشقِ ستم ہم جو بنے ہیں جگ میں
جرم یہ ہے کہ ترا نام لئے بیٹھے ہیں
جیتے جی مرنا کوئی اہلِ وفا سے سیکھے
خالقِ زیست پہ مرمر کے جیئے بیٹھے ہیں
نشۂ جام و سبو عارضی ہوتا ہے اثرؔ
جب ہی ساقی کی نگاہوں سے پیئے بیٹھے ہیں