روح سلوک |
|
پلٹ کر نہیں دیکھا زنجیرِ روایات سے کٹ کر نہیں دیکھا اسلاف کی دہلیز سے ہٹ کر نہیں دیکھا جس دن سے اٹھایا ہے قدم جانبِ منزل صد شکر کبھی ہم نے پلٹ کر نہیں دیکھا ہر آن رہی پیشِ نظر اپنی ہی صورت ہم نے کبھی آئینہ الٹ کر نہیں دیکھا کیا جانے بھلا لذتِ فریادِ مسلسل جس نے تری چوکھٹ سے چمٹ کر نہیں دیکھا وہ جیب و گریباں کو کرے چاک بھی کیسے جس نے ترے دامن سے لپٹ کر نہیں دیکھا ورنہ تو ہمیں ڈھونڈنے منزل چلی آتی ہم نے ہی اثرؔ راہ میں ڈٹ کر نہیں دیکھا