ساقی نامہ
کھلا یہ اب جنوں اپنا خرد آمیز ہے ساقی
شرابِ عشق کا نشہ بہت ہی تیز ہے ساقی
تجھے میں رومیء ثانی لکھوں یا دوسرا تبریز
کہ تجھ میں اجتماعِ رومی و تبریز ہے ساقی
خدا کے عشق کی مستی چھلکتی ہے نگاہوں سے
ترا پیمانۂ دل کس قدر لبریز ہے ساقی
ضعیفِ میکدہ سے وہ ملے پیر مغاں بن کر
مقابل ہو اگر نو عمر تو نوخیز ہے ساقی
ہیں مجبورِ شکستِ ضبط اہلِ میکدہ سارے
تری آہ و فغاں کچھ ایسی دل آویز ہے ساقی
دلِ حسرت زدہ کی داستاں سن کر یقیں آیا
کہ جنگِ نفس و شیطاں کس قدر خونریز ہے ساقی
کہاں تو اشرف و اقرب کہاں ہم ایسے تشنہ لب
تیرا نظرِ کرم کرنا تعجب خیز ہے ساقی