اب فرشتوں کے لئے ہوتا ہے یہ ارشادِ حق
ڈال دو دوزخ میں اس کو تاکہ حاصل ہو سبق
زندگی بھر یہ برے اعمال کرتا ہی رہا
عالمِ فانی کی رنگینی پہ مرتا ہی رہا
اور ستم اس پر کہ خود کو باعمل کہتا تھا یہ
اپنی ہی تعریف میں شعر و غزل کہتا تھا یہ
کیا خبر اس کو نہیں تھی ایک دن پیشی بھی ہے
عقبیٰ اس کا گھر ہے یہ دنیا میں پردیسی بھی ہے
اس نے اپنی عاقبت تو خود ہی کرلی ہے تباہ
سن کے یہ باتیں جھکی ہے شرم سے میری نگاہ
لوگ سارے دیکھتے ہیں مجھ ذلیل و خوار کو
خاسر و بدبخت کو بدکار کو لاچار کو
اب سوائے حسرت و افسوس کے کیا کیجئے
اے اثرؔ اس بات کو ہر روز سوچا کیجئے