خالقِ دل کی نظر
زیست کی کشتی کا رخ عقبیٰ کے ساحل کی طرف
بڑھ رہا ہے ہر مسافر اپنی منزل کی طرف
بھول جاتا ہے خدا کو یاد کرنا آدمی
رزق پہنچاتا ہے وہ پھر بھی تو غافل کی طرف
خلوتوں میں ایسی پائی لذتِ راز و نیاز
اب قدم اٹھتے نہیں یاروں کی محفل کی طرف
سیکڑوں عقلی دلائل بے اثر نادان پر
اک اشارہ بھی بہت ہوتا ہے عاقل کی طرف
اپنی آنکھوں کے نصیبے پر مجھے آتا ہے رشک
دیکھتا ہوں اک نظر جب شیخِ کامل کی طرف
اہلِ دل کے دل سے ہو جاتا ہے دل کا رابطہ
خالقِ دل کی نظر ہوتی ہے جب دل کی طرف
تلملاتے ہی رہو گے زندگی بھر تم اثرؔ
بھول کر بھی دیکھنا مت اب کسی تل کی طرف