روح سلوک |
|
آج کے نوجواں سن لے میری فغاں سُوئے دشت و دمن تارکِ سائباں تُو چلا ہے کہاں چھوڑ کر گلستاں کیوں تجھے راس آئی ہے فصلِ خزاں تُو جدھر ہے رواں خار ہیں بس وہاں آج کے نوجواں سن لے میری فغاں بال انگریز جیسے کٹائے ہوئے مونچھ حد سے زیادہ بڑھائے ہوئے اور داڑھی کو بالکل منڈائے ہوئے کیا مسلمان کے ہے یہ شایانِ شاں آج کے نوجواں سن لے میری فغاں کب تلک دارِ فانی کے عیش و طرب ختم کب ہوگی آخر یہ تاریک شب روشنی میں آ اور خود پہچان اب تجھ کو شاید کہ مل جائے اپنا نشاں آج کے نوجواں سن لے میری فغاں