لذتِ وصلِ دوام
جو اہلِ دل ہیں وہ یہ اہتمام کرتے ہیں
حرام خوشیوں کو خود پر حرام کرتے ہیں
خدا کی راہ میں جو خار چبھ گیا ہو اُسے
تمام پھول ادب سے سلام کرتے ہیں
عطا کئے ہیں جو ہم کو خوشی کے خالق نے
ہم ان غموں کا بڑا احترام کرتے ہیں
کوئی خود عرضی نہ لائے تو اس کی محرومی
وہ پانچ وقت تو دربارِ عام کرتے ہیں
فراقِ عارض و گیسوئے عارضی کے عوض
حصولِ لذتِ وصلِ دوام کرتے ہیں
یہ ان کی خاص عنایت نہیں تو پھر کیا ہے
کہ ہم بھی ان کی محبت کو عام کرتے ہیں
اس اعتبار سے خود بھی ہیں رشکِ گلشن وہ
کہ پھول جھڑتے ہیں جب وہ کلام کرتے ہیں
شروع کر ہی دیا ہے جو معرفت کا سبق
تو بابِ عصیاں کا ہم اختتام کرتے ہیں