نعت
بہت سننے کو سیرت پر ہمیں تقریر ملتی ہے
اطاعت کی مگر پیروں میں کم زنجیر ملتی ہے
نبی ﷺ کے ذکر ہی سے قلب کو تطہیر ملتی ہے
نبی ﷺ کی فکر ہی سے فہم کو تدبیر ملتی ہے
فقط شوقِ زیارت ہی سے کب ہے حاضری ممکن
یہ وہ دولت ہے جو منجانبِ تقدیر ملتی ہے
اسی حق گوئی کی خاطر تو یہ سولی پہ چڑھتے ہیں
ازل سے اہلِ دل کی ایک ہی تقصیر ملتی ہے
نہیں ہے دوسرا نقشہ سوائے گنبدِ خضریٰ
درونِ خانۂ دل ایک ہی تصویر ملتی ہے
بظاہر بے سروساماں نظر آتے ہیں یہ لیکن
غلامانِ نبی ﷺ کو خلد کی جاگیر ملتی ہے
جو سچ پو چھو تو ہے عشقِ شہِ ابرار ﷺ کا صدقہ
اثر کے آہ و نالوں میں جو یہ تاثیر ملتی ہے