لاکھ شیریں تھا عہدِ جوانی کا پھل
اب تو گرنے کو ہے دارِ فانی کا پھل
جس نے کھایا ہے اس زندگانی کا پھل
اس کو چکھنا پڑا موت کا ذائقہ
اب ضعیفوں سے ہے یہ مری التجا
خود کو تیار رکھیں برائے قضا
میں نے مانا ہے مصروفیت ٹھیک ہے
زور پر کسبِ دنیا کی تحریک ہے
پر یہ سوچا کبھی قبر نزدیک ہے
اس کی خاطر بھی ہے کوئی سامان کیا
اب ضعیفوں سے ہے یہ میری التجا
خود کو تیار رکھیں برائے قضا
یہ بجا ہے کہ دنیا یہ رنگین ہے
باعثِ بے حسی اس کی تزئین ہے
پر یہ غفلت جو ہے جرمِ سنگین ہے
ہے بھیانک بہت آخرت کی سزا
اب ضعیفوں سے ہے یہ مری التجا
خود کو تیار رکھیں برائے قضا