روح سلوک |
|
میں ہر ہر سانس اپنی آرزو کا خون کرتا ہوں یہ میرے جذبۂ شوقِ شہادت کی نشانی ہے ترا ہر ہر بیاں اک ایک مضموں اور ہر ملفوظ فصاحت کی علامت ہے بلاغت کی نشانی ہے جو اک ذرہ مثالِ مہر ہے دنیا کی آنکھوں میں یہ شیخِ وقت کی چشمِ عنایت کی نشانی ہے کسی کو ذکر بتلایا نہ استعداد سے بڑھ کر ترا اندازِ حکمت خود بصیرت کی نشانی ہے اثرؔ اعمالِ ظاہر کا اثر پڑتا ہے باطن پر نگاہوں کا وضو دل کی طہارت کی نشانی ہے ٭٭٭٭ کسی کو نیکیوں کی دھن کوئی مولیٰ کا طالب ہے کہیں پر عقل حادی ہے کہیں پر عشق غالب ہے