ایک ساتھی کے تلفِ سنت پر جذبات کا اظہار
خواب تھا دامنِ امید مرا بھر جانا
میں نے اک قطرئہ شبنم کو سمندر جانا
بے وفائی پہ تری تجھ سے کروں کیا شکوہ
میں نے اس ظلم کو بھی اپنا مقدر جانا
اس کو خوش فہمی کی آخر کو سزا ملنی تھی
جس نے پژمردہ کلی کو بھی گلِ تر جانا
اس کو دل چیر کے دکھلائوں تو حاصل کیا ہو
جس نے اس شیشۂ نازک کو بھی پتھر جانا
ہائے افسوس مری آنکھ نے دھوکہ کھایا
اپنا قد اپنے ہی سائے کے برابر جانا
جیتے جی آنکھ نے سنت کا جنازہ دیکھا
ایسے جینے سے تو بہتر تھا مرا مر جانا
کس طرح کرلیا مومن نے گوارا یہ ظلم
تاجِ سنت سے تو ارزاں تھا اثرؔ سر جانا