مزہ آجائے
غیب سے پردہ اٹھا دے تو مزہ آجائے
تو اگر جلوہ دکھا دے تو مزہ آجائے
عقل کی راہ سے دشوار ہے پانا تجھ کو
دل کو دیوانہ بنا دے تو مزہ آجائے
ہم مثالوں سے سمجھ سکتے نہیں دل کی مٹھاس
پھل محبت کا چکھا دے تو مزہ آجائے
ان کی راہوں میں نگاہیں تو ہوئیں فرشِ راہ
اپنے دل کو بھی بچھا دے تو مزہ آجائے
عقل کے نور کا مشکور مگر خالقِ طور
عشق کی آگ لگا دے تو مزہ آجائے
ہے مریضانِ محبت کا مرض استسقاء
یہ مرض اور بڑھا دے تو مزہ آجائے
ساری دنیا کے مزے تلخ ہیں اک تیرے بغیر
تو اگر دل کو مزہ دے تو مزہ آجائے