روح سلوک |
|
ذرا سوچ سمجھ کر اے دوست قدم اپنے بڑھا سوچ سمجھ کر یہ راہِ محبت ہے ذرا سوچ سمجھ کر پہنی ہے شریعت کی قبا سوچ سمجھ کر اوڑھی ہے طریقت کی ردا سوچ سمجھ کر رہنے کا اندھیرے میں مجھے شوق نہیں ہے طوفان میں رکھا ہے دیا سوچ سمجھ کر انگلی نہ اٹھے خضر سی صورت پہ کسی کی اے دوست نگاہوں کو اٹھا سوچ سمجھ کر پائے گا نمو اس سے مرے عجز کا پودا مٹی میں ملائی ہے انا سوچ سمجھ کر عشاق تو رہتے ہیں صدا زندئہ و جاوید تجویز کرو میری سزا سوچ سمجھ کر ہے صحتِ روحانی اسی شخص کو حاصل جو نفس کو دیتا ہے غذا سوچ سمجھ کر