بادبانِ غمِ تقویٰ
خواہشِ نفس نے طوفان اٹھا رکھا ہے
بادبانِ غمِ تقویٰ نے بچا رکھا ہے
خالقِ قلب بھلا قلب میں آئے کیسے
ہم نے جب قلب میں غیروں کو بسا رکھا ہے
تو نے اس شخص کو کیا دیکھا نہیں ہے جس نے
خواہشِ نفس کو معبود بنا رکھا ہے
بھولنے والا کبھی کیف نہیں پا سکتا
آپ کی یاد میں کچھ ایسا نشہ رکھا ہے
ایک مدت کی پریشانی چھپی ہے اس میں
چند لمحوں کا گناہوں میں مزہ رکھا ہے
آج کے دور میں ماحول سے ٹکر لینا
ایسا لگتا ہے کہ طوفاں میں دیا رکھا ہے
یہ سراسر ہے مرے پیر کا فیضانِ نظر
سر کے خنّاس کو پیروں میں دبا رکھا ہے