روح سلوک |
|
حسد کی آگ حسد کی آگ میں جس کو بھی جلتے دیکھا ہے اسے تو میں نے فقط ہاتھ ملتے دیکھا ہے میں کیا بتائوں نئی روشنی کے کاندھوں پر حیا کا میں نے جنازہ نکلتے دیکھا ہے وہ جس کی آنکھ میں کوئی حسین بس جائے تمام شب اُسے کروٹ بدلتے دیکھا ہے کسی کا سوز مرا دل گداز کیوں نہ کرے کہ میں نے آگ سے لوہا پگھلتے دیکھا ہے اثرؔ یہ رہ نہیں سکتی اثر بغیر کئے کہ میں نے آہ کو دل سے نکلتے دیکھا ہے ٭٭٭٭ نظروں کو کئے چار یہ کیا دیکھ رہا ہے کیا تجھ کو نہیں علم خدا دیکھ رہا ہے