متاعِ سخن
مری متاعِ سخن وقف اُس کی شان میں ہے
کہ جو مجددِ ملت مرے گمان میں ہے
اُس ایک پھول کی خوشبو بسی جہان میں ہے
جو پھولپور سے گلشن میں گلستان میں ہے
وہ بولتا ہے کہ رس گھولتا ہے کانوں میں
عجیب چاشنی الفاظ میں زبان میں ہے
گناہ چھوڑ کے پائی ہے قرب کی ٹھنڈک
کبھی جو دھوپ میں تھا اب وہ سائبان میں ہے
کوئی بھی گاہکِ دل خالی جا نہیں سکتا
ہر ایک قسم کا سودا تری دکان میں ہے
بس ایک جان فدا کی ہے خالقِ جاں پر
یقین جانیے سو جان میری جان میں ہے
جو سنگدل ہیں پگھلتے ہیں موم کی مانند
نہ جانے کون سا جادو ترے بیان میں ہے
اثر یہی ہے دلیلِ مقامِ صدیقین
زمیں پہ جسم مگر روح آسمان میں ہے