اشکِ ندامت
بھلا اشکِ ندامت عرش پر کب پائے جاتے ہیں
یہ ایسے موتی ہیں جو فرش سے منگوائے جاتے ہیں
سرورِ منزلِ مولیٰ وہی بس پائے جاتے ہیں
جو اپنے نفس کی دیوار کو خود ڈھائے جاتے ہیں
کوئی کب سرنگوں کرتا ہے آخر اپنے جھنڈے کو
جبھی سنت کا پرچم رخ پہ ہم لہرائے جاتے ہیں
رعایا فوج خدام و محل مونس ہیں دنیا تک
کہ سب تنہا ہی اپنی قبر میں دفنائے جاتے ہیں
تقاضائے وفاداری ہمیں مجبور کرتا ہے
کہ جس کا رزق کھاتے ہیں اُسی کی گائے جاتے ہیں
معاصی کے اندھیروں میں نہ ہو توفیقِ توبہ گم
کہ تاحدِّ نظر ان غفلتوں کے سائے جاتے ہیں
نہ آیا ارتکابِ معصیت میں جب حجاب ان کو
اثرؔ پھر توبہ کرنے میں وہ کیوں شرمائے جاتے ہیں