روح سلوک |
|
لطفِ زندگی مجاہدات کی بھٹی سے جو گزرتا ہے تو مثلِ کیمیا دراصل وہ نکھرتا ہے اسی کو اصل میں ہے لطفِ زندگی حاصل جو ایک ذاتِ حیات آفریں پہ مرتا ہے تو شہرِ عشق پہ ہوتا ہے زلزلہ طاری دیارِ حسن نگاہوں سے جب گزرتا ہے جو سوچتے ہیں فقط سوچتے ہی رہتے ہیں جو کرنے والا ہے ہر کام کر گزرتا ہے یہ بحرِ عشق ہے گہرائیوں سے مت گھبرا جو اس میں ڈوبتا ہے بس وہی ابھرتا ہے وہ مطمئن نہیں سونے کی وادیوں پر بھی بشر کا قبر کی مٹی سے پیٹ بھرتا ہے نظر میں جس کی سمائی ہو ایک ذاتِ قدیم تغیراتِ زمانہ سے کب وہ ڈرتا ہے