اجتنابِ معا صی کا غم
رہِ سلوک کا کیف و سرور پا نہ سکے
جو اجتنابِ معاصی کا غم اٹھا نہ سکے
وہ مسجدوں میں مراقب رہیں تو کیا حاصل
سڑک پہ آکے جو اپنی نظر جھکا نہ سکے
ہمیں وصول اِلی اللہ ہو تو کیسے ہو
ہم اپنے نفس کی دیوار ہی کو ڈھا نہ سکے
دلِ شکستۂ مومن مکان ہے اس کا
جو کائنات کی وسعت میں بھی سما نہ سکے
ہوا کو چاہیئے کہ اہلِ دل کے منہ کو نہ آئے
کہ ان چراغوں کو طوفان بھی بجھا نہ سکے
ہے ایسا شخص اثرؔ قابلِ مبارک باد
گناہ جس کی طبیعت کو راس آ نہ سکے
اثرؔ وہ چکھ نہیں سکتا کبھی فنا کا ثمر
انا کے تخم کو جو خاک میں ملا نہ سکے