موتی کی غذا کیوں نہیں لیتے
ایماں کی حلاوت کا مزہ کیوں نہیں لیتے
سڑکوں پہ نگاہوں کو جھکا کیوں نہیں لیتے
لو اپنے چراغوں کی بڑھائو گے کہاں تک
خورشید ہی سے آنکھ ملا کیوں نہیں لیتے
کوّے تو نہیں ہو کہ ہو مرغوب غلاظت
تم ہنس ہو موتی کی غذا کیوں نہیں لیتے
کرتے ہو معاصی کے مرض کو نظر انداز
روحانی طبیبوں سے دوا کیوں نہیں لیتے
اب آتشِ الفت کی درآمد بھی کہاں تک
یہ آگ ہی سینے میں لگا کیوں نہیں لیتے
ہر بیکس و مجبور کی کرتے ہو خوشامد
اک صاحبِ قدرت کو منا کیوں نہیں لیتے
ہیں داغ جو عصیاں کے اثرؔ دامنِ دل پر
اشکوں کے سمندر میں نہا کیوں نہیں لیتے