سوزِ اہلِ دل
ہے ایسا سوزِ اہلِ دل کہ جو بے ساز ہوتا ہے
زمیں کو آسماں سے ربطِ بے آواز ہوتا ہے
جنم لیتی ہے نافرمانیٔ حق کی جہاں خواہش
وہیں قہرِ خدا کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے
خرد کے زعم میں اہلِ خرد یہ راز کیا جانیں
کہ مٹ جانا ہی اہلِ عشق کا اعزاز ہوتا ہے
عجب طرزِ سخن ہے جی نہیں بھرتا سماعت سے
مضامینِ کہن کا بھی نیا انداز ہوتا ہے
بتا دیتی ہیں رازِ دردِ پنہاں چشمِ باریدہ
کہ سیلِ اشک سوزِ قلب کا غماز ہوتا ہے
اگر خاموش رہتے ہیں تو پہچانے نہیں جاتے
اگر یہ آہ کرتے ہیں تو افشا راز ہوتا ہے
پروں میں گوند شہوت کا لگا دیتا ہے ظالم نفس
پرندہ روح کا جب مائلِ پرواز ہوتا ہے
اثرؔ شاہین بننا ہے تو خصلت چھوڑ کرگس کی
کہیں مردار کھانے والا بھی شہباز ہوتا ہے